ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
پاکستان قبائلی رواج کے مطابق، خاص طور پر دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کی 18 سے 20 اور بچیوں کی 14 سے 16 سال میں شادیاں کروا کر ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ لڑکا 25 سے 28 کی عمر تک تین یا چار بچوں کا باپ ہوتا ہے اور اسکے بعد وہ عملی زندگی شروع کرنے نکلتا ہے۔ باپ 40 کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسکے بچے بھی کمائی اور روزگار کے قابل ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انکے لئے یہی طریقہ کار بہترین ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ قدرتی ماحول کے زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ﺳﯿﮑﺲ ﯾﺎ ﺷﮩﻮﺕ ایک ہی چیز کا نام ہے۔۔ اس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن موقع ملے تو چھوڑتا کوئی بھی نہیں۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ حقیقت پسند کہتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ یہیں ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﺩ اور ﻋﻮﺭﺕ کو نو عمری سے نو بڑھاپے تک ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ رہے ہیں، بلوغت ابڑا ہے جسکو والدین، خ چڑھ کر بولتی ہے اور اس عمراسکا میں جوانی کا بھر پور نشہ چڑھا ہوتا ہے اور یہی عمر شادی کرنے کیلئے سب سے موزوں عمر ہے۔ اسلام بھی اس عمر میں شادی کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ تیس سال کے بعد دھیرے دھیرے جنسی اور جسمانی طاقت میں کمی آنے لگتی ہے اور چالیس سال تک خوش قسمت اور صحتمند مرد پھر بھی جسمانیکتنا طور پر شکایت تو نہیں کرتے لیکن اسے اندر کی تبدیلی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں وہ تبدیلی جسے کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں اسے کٹھکتی بھی ہے۔ چالیس سال کےور شادی کے درمیان یہ دس پندرہ سال شدید ترین جنسی خواہش کے ہوتے ہیں ۔
نقصان لیکن بہت بڑا ہے جسکو والدین، خ چڑھ کر بولتی ہے اور اس عمراسکا میں جوانی کا بھر پور نشہ چڑھا ہوتا ہے اور یہی عمر شادی کرنے کیلئے سب سے موزوں عمر ہے۔ ۔ قبائلی رواج کے مطابق، خاص طور پر دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کی 18 سے 20 اور بچیوں کی 14 سے 16 سال میں شادیاں کروا کر ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ لڑکا 25 سے 28 کی عمر تک تین یا چار بچوں کا باپ ہوتا ہے اور اسکے بعد وہ عملی زندگی شروع کرنے نکلتا ہے۔ باپ 40 کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسکے بچے بھی کمائی اور روزگار کے قابل ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انکے لئے یہی طریقہ کار بہترین ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ قدرتی ماحول کے زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ﺳﯿﮑﺲ ﯾﺎ ﺷﮩﻮﺕ ایک ہی چیز کا نام ہے۔۔ اس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن موقع ملے تو چھوڑتا کوئی بھی نہیں۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ حقیقت پسند کہتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ یہیں ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﺩ اور ﻋﻮﺭﺕ کو نو عمری سے نو بڑھاپے تک ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﮎ حلال طریقے ﺳﮯ ﻧﮧ ﻣﭩﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ حرام ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ لہذا نکاح کو آسان بنائیں. اگر معاشی حالات اجازت دیں تو اپنے بچوں کی شادیاں کرانے میں دیر نا کریں۔ نا صرف جنسی کمزوری یا جنسی طاقت کی وجہ سے بلکہ اسلئے بھی کہ بیوی کے میسر آنے کے بعد نوجوان مرد بہت سارے گناہوں اور غلط کاریوں سے بچا رہتا ہے بلکہ عورت کیلئے بھی یکساں مفید فارمولہ ہے۔اسلام بھی اس عمر میں شادی کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ تیس سال کے بعد دھیرے دھیرے جنسی اور جسمانی طاقت میں کمی آنے لگتی ہے اور چالیس سال تک خوش قسمت اور صحتمند مرد پھر بھی جسمانیکتنا طور پر شکایت تو نہیں کرتے لیکن اسے اندر کی تبدیلی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں وہ تبدیلی جسے کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں اس میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کی 18 سے 20 اور بچیوں کی 14 سے 16 سال میں شادیاں کروا کر ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ لڑکا 25 سے 28 کی عمر تک تین یا چار بچوں کا باپ ہوتا ہے اور اسکے بعد وہ عملی زندگی شروع کرنے نکلتا ہے۔ باپ 40 کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسکے بچے بھی کمائی اور روزگار کے قابل ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انکے لئے یہی طریقہ کار بہترین ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ قدرتی ماحول کے زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ﺳﯿﮑﺲ ﯾﺎ ﺷﮩﻮﺕ ایک ہی چیز کا نام ہے۔۔ اس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن موقع ملے تو چھوڑتا کوئی بھی نہیں۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ حقیقت پسند کہتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ یہیں ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﺩ اور ﻋﻮﺭﺕ کو نو عمری سے نو بڑھاپے تک ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﮎ حلال طریقے ﺳﮯ ﻧﮧ ﻣﭩﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ حرام ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ لہذا نکاح کو آسان بنائیں. اگر معاشی حالات اجازت دیں تو اپنے بچوں کی شادیاں کرانے میں دیر نا کریں۔ نا صرف جنسی کمزوری یا جنسی طاقت کی وجہ سے بلکہ اسلئے بھی کہ بیوی کے میسر آنے کے بعد نوجوان مرد بہت سارے گناہوں اور غلط کاریوں سے بچا رہتا ہے بلکہ عورت کیلئےے کٹھکتی بھی ہے۔ چالیس سال کے بعد جنسی کمزوری کا لاحق ہونا ایک بالکل عام سی بات ہے جو تقریبا ہر مرد کا مسئلہ رہتا ہے چاہے وہ بھی پہلوان بننے کا دعوہ کرے
۔
ہمارے قبائلی رواج کے مطابق، خاص طور پر دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کی 18 سے 20 اور بچیوں کی 14 سے 16 سال میں شادیاں کروا کر ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ لڑکا 25 سے 28 کی عمر تک تین یا چار بچوں کا باپ ہوتا ہے اور اسکے بعد وہ عملی زندگی شروع کرنے نکلتا ہے۔ باپ 40 کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسکے بچے بھی کمائی اور روزگار کے قابل ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انکے لئے یہی طریقہ کار بہترین ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ قدرتی ماحول کے زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔
ﺳﯿﮑﺲ ﯾﺎ ﺷﮩﻮﺕ ایک ہی چیز کا نام ہے۔۔ اس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن موقع ملے تو چھوڑتا کوئی بھی نہیں۔ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ حقیقت پسند کہتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ
ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ یہیں ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﺩ اور ﻋﻮﺭﺕ کو نو عمری سے نو بڑھاپے تک ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﮎ حلال طریقے ﺳﮯ ﻧﮧ ﻣﭩﮯ ﺗﻮ
ﺍﻧﺴﺎﻥ حرام ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻼﺵ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ لہذا نکاح کو آسان بنائیں.
اگر معاشی حالات اجازت دیں تو اپنے بچوں کی شادیاں کرانے میں دیر نا کریں۔ نا صرف جنسی کمزوری یا جنسی طاقت کی وجہ سے بلکہ اسلئے بھی کہ بیوی کے میسر آنے کے بعد نوجوان مرد بہت سارے گناہوں اور غلط کاریوں سے بچا رہتا ہے بلکہ عورت کیلئے بھی یکساں مفید فارمولہ ہے۔
آپ اس موضوع پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
Comments
Post a Comment